Sunday 9 August 2015

تبلیغی جماعت، مدارس اوراہل تصوف


تبلیغی جماعت،  مدارس
 اوراہل تصوف
 مضبوط ربط ، احترام ورفاقت  اور آپسی تعاون کی ضرورت
انکے بیچ کوئی  غلط فہمی امت مسلمہ کا بڑا نقصان ہے
https://archive.org/details/MadarisTablighKhanqahtaawunZaruratMukhalfat
ڈونلوڈ کے لئےاردو کتاب 

https://archive.org/details/MadarisTablighKhanqahtaawunZaruratMukhalfat
ڈونلوڈ کے لئےا

مولانا ابراہیم مرکز نظام الدین نصیحت اردو




ایک گزارش اور درد مند اپیل
آجکل انٹرنیٹ پر کچھ حلقوں کی طرف سے یہ پھیلایا جا رہا ہے کی تبلیغی جماعت کے افراد مدارس کے خلاف ہیں ۔یا علما اور اہل علم و ذکر کی بے اکرامی کررہے ہیں۔راقم لگ بھگ 20 سال سے دعوت و تبلیغ کے کام سے جڑا ہے۔اور پورےہندوستان میں جاتا رہا ہے۔اور خوانہ بدوش (کم پڑھے لکھے ) سے لیکر بڑے بڑے  تعلیم یافتہ جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ چلا ہوں ۔مجھے تو ایسے لوگ نہیں ملے۔اسکے بعد بھی میں انکار نہیں کر رہا ہوں کے ایسے لوگ بالکل نہیں ہیں۔ لیکن ایک بات صا ف ہے کی تبلیغی جماعت کا سواد اعظم ایسا نہیں ہے۔
اسلئے جو لوگ اپنے ذاتی تجربہ کے بنیاد پر یہ بات پھیلا رہے ہیں کہ تبلیغی جماعت کے افراد مدارس کے خلاف ہیں ۔یا علما اور اہل علم و ذکر کی بے اکرامی کررہے ہیں ان سے درخواست ہے کے وہ اس کی وضاحت کر دیں کہ تبلیغ کی اکثریت ایسی نہیں ہے۔اور یہ تبلیغی جماعت کے بالکل بنیاد کے خلاف ہے۔اور انہیں  چاہیئے کہ وہ اپنی شکایت نظام الدین مرکز یا رایونڈ  مرکز لکھ دے ۔یہ دین کی بڑی خدمت  ہوگی ۔اور اگر کوئی  کسی اور وجہ  سے یا کسی فرد سے ذاتی  رنجش کی وجہ سے تبلیغی جماعت  کے کام کو بدنام کرے گا تو یہ آخرت کے اعتبار سے بڑا خطرہ ہے۔
نقصان اسلام  مسلمانوں اور انسانیت  کا
 تبلیغی جماعت  عوام کی سطح پر مسلمانوں کو دین  سے جوڑنے کی محنت ہے۔جو سارے عالم میں  علماء کرام کی سر پرستی میں چل رہی ہے۔اور اللہ ہی اتنے بڑے نظام کو چلا سکتا ہے ۔ورنہ اس مادیت کے دور جب ہر کوئی اپنی دنیا بڑھانے کی فکر میں ہے۔لاکھوں لوگ بغیر کسی پیسہ اور مال کی لالچ میں اپنا  پیسہ   اور وقت خرچ کر کے ،تکلیف برداشت کرکے انسانیت کو اللہ کے دین سے جوڑنے کی فکر میں لوگوں کے دروازہ پر جا رہے ہیں۔ کم علمی نادانی  یا تعصب کی وجہ سے کچھ نادان مسلمان تبلیغی جماعت کے خلاف عام مسلمانوں کو بہکاتے اور وسوسہ ڈالتے ہیں ۔تبلیغی  جماعت میں نہ کوئی  پوسٹ نہ پیسہ ممبرشپ  اور فنڈ نہیں ہے اسلئے اسکے نقصان اور فائدہ کا سوال ہی نہیں ۔ تبلیغی جماعت کی مخالفت   دراصل اسلام ، مسلمانوں اور انسانیت  کا نقصان ہے۔
تبلیغی جماعت غلطیوں  سے مبرہ  نہیں  ہے ۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ تبلیغی جماعت غلطیوں سے مبرہ ہے  ۔اسکے افراد میں اور اسکے اصولوں میں دونوں میں غلطی کا امکان ہے اور اصلاح کی گنجائش ہے ۔اور علماء حق کی ذمہ داری اور وقت کی ضرورت ہے  کہ اصلاح کی باتوں پر ضرور گرفت کی جائے  ۔ اور اس سلسلے میں تبلیغ  سے جڑے عوام سے لیکر علماء اکابر اور مرکز نظام  الدین کے ذمہ دار کوئی مستثنیٰ  نہیں  ۔
تبلیغی جماعت  کی  ممکنہ غلطیوں کے اصلاح کا طریقہ
اس کا طریقہ یہ ہے کہ افراد سے اگر کوئی غلطی ہو رہی ہے تو یہ واضح کر دیا  جائے کہ یہ اس فرد کی غلطی ہےتبلیغی جماعت کی نہیں اور اصول اور طریقہ کار میں کوئی اصلاح یا گرفت کی بات ہو تو    مرکز نظام الدین یا مرکز رائونڈ سے براہ راست رابطہ کیا جائے  ۔ اس سلسلے میں اگر سفر کرنے کی بھی ضرورت  پیش آئے تو یہ دین کی بڑی خدمت ہوگی  ۔ کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں لوگ اس کام سے جڑے ہیں  ۔  اور آپ کو ان سب کی اصلاح اور آگے جڑنے والوں کی اصلاح  کا ثواب ملے گا ۔
تبلیغ سے جڑے لوگوں سے خاص  درخواست
اسی کے ساتھ تمام تبلیغ سے جڑے لوگوں سے درخواست ہے کہ اگر کسی سے یہ غلطی ہوئی ہے تو اللہ سے اور اس بندہ سے معافی مانگے۔اور اگر آپ کوئی تحریر ایسی  دیکھں تو  اسکی طح میں جائیں ۔اور اگر بات صحیح ہے تو اپنے ساتھی کی اصلاح کریں ۔اور فرد کی مراتب کے اعتبار سے اپنے بڑوں تک پہنچائیں۔تاکہ سب کی اصلاح ہو جائے۔
اور اگر غلط ہو تو یہ بات الزام لگانے والے پر پہچائیں  کہ یہ بات غلط تھی ،اور صبر کریں۔میں نے اس طرح کی ایک واقعہ کی  تحقیق کی تو معلوم ہوا کی  دوشخص کی  آپسی رنجش اصل وجہ تھی۔اور وہ ساتھی کسی ترتیب سے نہیں جڑا تھا اور جماعت میں  یا مقامی کام میں کوئی پابند نہیں تھا۔بہر حال   اگر کسی سے یہ غلطی ہوئی ہے تو اللہ سے اور اس بندہ سے معافی مانگے ۔

رح یہ مضمون اس طرح کی بات اور تبلیغ اور مدارس سے جڑے تمام پہلوئوں پر ہمارے مضامین کا حصہ ہے۔اس سلسلے کا کوئی مضمون بھی بھیج سکتے ہیں۔ دعا کی خصوصی درخواست ہے۔
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
مسلمان نبی پاک کے بتائے دعوت و تبلیغ کے طریقے پر عمل کئے بغیر ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے':     مولانا  طارق جمیل
 رائے ونڈ :رائیونڈ میں منعقدہ سالانہ تبلیغی اجتماع کے دوسرے مرحلے میںپہلے روز نماز جمعہ سے قبل امیر جماعت رائے ونڈ حاجی عبدالوہاب نے ہدایات پر مبنی بیان کیا ،نماز جمعہ مولا نا محمد ابراہیم نے پڑھائی جس کے بعد 
 ممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل نے تبلیغی جماعت کی تاریخ اور مشن کے بارے تفصیلی خطاب کیا ،
انہوں نے کہا کہ جب تک مسلمان عالم اسلام دعوت و تبلیغ کے کام کو اسی طریقے سے شروع نہیں کریں گے جو حضور اکرم نے بتایا ہے وہ اسی طرح ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے ،کفار ان پر غالب آجائیں گے ،دین سے دور ہونے والے مسلمانوں کے ضمیر کی آواز انہیں سنائی نہیں دے گی ،بزدلی چھا جائے گی ہر غیر سے ڈریں گے اور انہیں ہی سب کچھ مانیں گے ،مسلمانوں کی حالت بداعمالیوں کا نتیجہ ہے ،بم دھماکے اور خود کش حملے کرنے والے اسلام کے خیر خواہ نہیں،یہ کفر کا ہتھیار بننے والے نامکمل مسلمان ہیں جن کی برین واشنگ کی گئی ہے ،لیکن ان پر غلبہ پانے کیلئے صحیح مسلمان بننا ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ غیر مسلموں کو مسلمان بنانے سے زیادہ اہم کام مسلمانوں کو مسلمان بنانا ، نام کے مسلمانوں کو کام کے مسلمان، اور قومی مسلمانوں کو دینی مسلمان بنانا ہے۔ حق ہے کہ آج مسلمانوں کو حالت دیکھ کر قرآن پاک کی یہ ندا(اے مسلمانوں ! مسلمان بنو!!) کو پورے زورو شور سے بلند کیا جائے۔ اللہ رب العزت نے انسانوں کی ہدایت کا انتظام ہر زمانے میں جاری رکھا ہے اور اپنی حکمت اور اپنے علم کے ما تحت کبھی قوم در قوم کبھی قبیلہ در قبیلہ اس کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہدایت کی محنت کرنے والوں کو انبیا اور رُسل کے نام سے موسوم فرمایا۔ اور جس قوم کیلئے جن اصولوں کو اللہ تعالیٰ نے مناسب سمجھا وہی اصول محنت کرنے والوں کو بذریعہ وحی یا الہام عطا فرماتے رہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح حضور اکرم ا تک جاری رہا۔ اور آپ کی بعثت پر سابقہ ترتیب کو ختم فرما کر پورے انسانوں اور قیامت تک کیلئے آقائے نامدار سرور کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کا ہادی اور امام قرار دے دیا گیا۔ اس رہبر کامل کوحق تعالیٰ شانہ کی جانب سے کارِ نبوت کے تین فرائض عطا کئے گئے۔ اوّل تلاوت احکام، دوم تعلیم کتاب و حکمت ، سوم تزکیہ، رسول اکرم لوگوں کو پیغام الٰہی پڑھ کر سناتے، حکمت الٰہی کی باتیں سکھاتے، پھر اپنی صحبت فیض اثر سے پاک صاف کرتے، نفوس کا تزکیہ فرماتے، قلوب کے امراض کا علاج کرتے، برائیوں کا زنگ اور میل دور کر کے اعلیٰ اخلاق انسانی کو سنوارتے۔ آپ دوران تبلیغ تالیفِ قلب کا بڑا خیال رکھتے۔ لطف و محبت ، عفوودرگزر اور ہمدردی سے آپ انے بہت سے لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام بنایا۔ حضور اکے طریقہ تبلیغ میں صبرواستقامت کا عنصر بڑا نمایاں تھا۔ دائمی حق و صداقت کی مخالفت اور سختی جس قدر بڑھتی اسی قدر تبلیغ کی شدت زیادہ ہو جاتی۔ باطل کی قوتیں حق کو دبانے کیلئے چاروں طرف سے پورش کر کے آجاتیں تو دائمی انقلاب ایک مضبو چٹان کی طرح جم کر کھڑے ہو جاتے اس ہادی برحق نے خفیہ طور پر بھی پیغام حق دوسروں تک پہنچایا اور پھر اعلانیہ تبلیغ کے مراحل بھی طے کئے غیر ممالک میں تبلیغ کا فریضہ خطوط لکھوا کر پورا کیا غرضیکہ ظاہرو باطنی فرائض یکساں اہمیت سے ادا ہوتے رہے۔ چنانچہ صحابہ اکرام ؓ اور ان کے تابعین اور اولیاءاکرام تک یہ فرائض اسی طرح انجام پاتے رہے۔ اور پھر وہ دور شروع ہوا جس مین مسندِ ظاہر کے درس گو باطن کے کورے اور باطن کے روشن دل ظاہر سے عاری ہونے لگے۔ اور عہد بہ عہد ظاہرو باطن کی خلیج بڑھتی ہی چلی گئی۔ علوم ظاہرہ کیلئے مدارس کی چاردیواری اور تعلیم و تزکیہ باطن کیلئے خانقاہوں اور رباطوں کی تعمیر عمل میں آئی اور وہ مسجد نبوی جس مین یہ دونوں جلوے یکجا تھے اس کی تجلیات ، مدرسوں اور خانقاہوں کے دو حصوں میں تقسیم ہو گئیں۔ جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ مدارس سے علماءدین کی بجائے علمائے دنیا برآمد ہونے لگے اور باطن کے مدعی علم شریعت کے اسرار و کمالات سے غافل ہو کر رہ گئے۔ اس دور زبوں میں بھی عالم اسلام میں ایسی ہستیاں پیدا ہوتی رہیں جو آرائش ظاہر اور جمالِ باطن سے آراستہ و پیراستہ تھیں ان برگزیدہ ہستیوں میں حضرت امام غزالی ؒ، شیخ عبد القادر جیلانی ؒ، حضرت امام بخاری ؒ ، اور حضرت سفیان ثوری نمایاں ہیں۔ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس ؒ بھی اسی سلسلہ ولی الٰہی کی ایک کڑی ہیں جس مبارک دینی ماحول میں مولانا محمد الیاس ؒ کی عمر کا ابتدائی حصہ گزرا تھا اس کی مخصوص دینی و روحانی فضا کی وجہ سے بمشکل اس بات کا احساس ہو سکتا تھا کہ مسلمانوں میں سے ایمان و یقین کی دولت سرعت کے ساتھ نکلتی جارہی ہے۔ دین کی طلب اور قدر سے دل تیزی کے ساتھ خالی ہوتے جارہے ہیں۔ اس ماحول میں چونکہ صرف خواص اہل دین اور اہل طلب سے واسطہ پڑتا تھا اور احساس نہ ہونابے موقع نہ تھا۔ وہاں رہ کر ہی تصور کیا جاسکتا تھا کہ مسلمانوں کی زندگی دعوت و تبلیغ اور دین کی ابتدائی جدوجہد کی منزل سے آگے بڑھ چکی ہے اور اب صرف مدنی زندگی کے تکمیلی مشاغل کی ضرورت ہے۔ اس لئے وہاں رہ کر مدارس دینیہ کے قیام و اہتمام ، کتاب و سنت کی اشاعت ، درس حدیث، دینی تصانیف و تالیف، قضا افتائ، ردِّ بدعات، اہل باطل سے مناظرہ واحقاقِ حق اور سلوک و تربیت باطنی کے علاوہ کسی اور طرف ذہن کا منتقل ہونا بہت مشکل تھا وہاں کام کی نوعیت یہ تھی گویا زمین ہموار دیتا رہے صرف اس پر پودے اور درخت بٹھانا باقی ہے۔ اس ماحول کا طبعی تقاضا تو یہ تھا کہ آپ بھی انہیں میں سے کسی شعبے کی طرف متوجہ ہوتے اور اپنی خداد استعداد صلاحیت سے اس میں کمال پیدا کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں آپ کی خاص رہنمائی فرمائی اور آپ کی بصیرت پر یہ حقیقت منکشف کر دی کہ جس سرمایا کے اعتماد پر یہ سارا جمع خرچ ہے وہ سرمایا ہی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے جس زمین پر دین کے یہ درخت نصب کرنا ہیں وہ زمین ریت کی طرح پاں کے نیچے سے کھسکتی جارہی ہے۔ امّہات عقائد میں ضعف پیدا ہو گیا ہے اور بڑھتا جارہا ہے خدا کی خدائی اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کا یقین کمزور ہوتا جارہا ہے اور اجر و ثواب کا شوق (ایمان و احتساب) دل سے اٹھتا جارہا ہے۔ یہ انکشاف اس وضاحت اور قوت کے ساتھ ہو اکہ اس سے مولانا کی زندگی کا رخ بالکل ہی تبدیل ہو گیا۔ طبائع رحجانات کے سیلاب کے رخ کو خداد بصیرت و فراست سے پہچان کر آپ نے اچھی طرح محسوس کر لیا کہ نئے دینی اداروں کا قیام تو الگ رہا پرانے اداروں اور دینی مرکزوں کی حالت بھی خطرے سے باہر نہیں۔ اس لئے کہ وہ رگیں اور شریانیں جس سے ان میں خون زندگی آتا تھا مسلمانوں کے جسم میں برابر خشک ہوتی جارہی ہیں ان کی طلب اور ضرورت کا احساس ہوا کہ اس وقت کا احساس ، ان کی قدر کم ہو رہی ہے مولانا کو اس بات کا پوری شدت سے احساس ہوا کہ ا س وقت سب سے مقدم اور ضروری کام قلب کی تبلیغ اور مسلمانوں میں اپنے مسلمان ہونے کااحساس پیدا کرنا ہے اور یہ کہ دین سیکھے بغیر نہیں آتا اور دنیاوی ہنروں کے بجائے اسے سیکھنے کی ضرورت زیادہ ہے یہ احساس اور طلب پیدا ہو گئی تو باقی مراحل خود طے ہو جائیں گے۔ اس وقت مسلمانوں کا عمومی مرض بے حسی اور بے طلبی ہے لوگوں نے غلط فہمی سے سمجھ لیا ہے کہ ایمان تو موجود ہی ہے اس لئے ایمان کے بعد جن چیزوں کا درجہ ہے ان میں مشغول ہو گئے۔ حالانکہ سرے سے ہی ایمان پیدا کرنے کی ضرورت باقی ہے اس احساس و طلب اور اسلام کے اصول اپنانے کی تلقین کے طریقہ کار کے متعلق مولانا کا نظریہ یہ تھا کہ اسلام کا کلمہ طیبہ ہی اللہ کی رسی کا وہ سرا ہے جوہر مسلمان کے ہاتھ میں ہے۔ اسی سرے کو پکڑ کو آپ پورے دین کی طرف کھینچ سکتے ہیں۔ اس لئے مسلمان جب تک کلمہ کا اقرار کرتا ہے اسے دین کی طرف لے آنے کا موقع باقی ہے اس موقع کے ہاتھ سے نکل جانے سے پہلے اس کا فائدہ اٹھا لینا چاہیے۔ اس لئے کلمہ کے ذریعے ہی ان میں تقریب پیدا کی جائے کلمہ یاد نہ ہو تو یاد کرایا جائے غلط ہوتو اس کی تصحیح کی جائے کلمہ کے معنی و مفہوم بتائے جائیں اور سمجھایا جائے کہ خدا کی بندگی اور غلامی اور رسول کی تابعداری کا اقرار ان سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔ اسی طرح ان کو اللہ اور رسول کے احکامات کی پابندی پر لایا جائے۔ نیز یہ بات ذہن نشین کرائی جائے کہ مسلمانوں کی طرح زندگی گزارنے کیلئے اللہ کی مرضی و منشاءاوراس کے احکام و فرائض معلوم ہونے کی ضرورت ہے دنیا کا کوئی ہنر سیکھے اور کچھ وقت ضائع کئے بغیر نہیں آتا۔ دین بھی بے طلب نہیں آتا اس کے لئے اپنے مشاغل سے وقت نکالنا ضروری ہے۔ ان نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے مولانا الیاس ؒ نے بستی نظام الدین سے تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا اس زمانے میں یہ بستی غیر آباد تھی۔ ایک چھوٹی سے کچی مسجد اور حجرے کے سوا یہاں کچھ نہ تھا۔ درگاہ حضرت نظام الدین کے جنوب میں مختصر سی آبادی تھی۔ مسجد میں چند میواتی غریب طالبعلم ہر وقت موجود رہتے تھے یہ زمانہ نہایت تنگدستی اور فقروفاقہ کا تھا۔ عرصہ تک یہ مجاہدہ جفاکشی اور ریاضیت جاری رہی۔ وہ مروجہ تمام ذرائع ابلاغ کو جائز تو سمجھتے تھے مگر انبیاءوالے کام کیلئے اسی سادہ فہم سینہ بہ سینہ، انسان بہ انسان ، زندگی بہ زندگی والے طریق دعوت کو اصل اور افضل سمجھتے تھے۔ لہٰذا مسلمانوں کو اطاعت حق ، حفاظت حق اور اشاعت حق کو ہی اپنا مقصد حیات بنانا چاہیے اور اپنی جان اپنا مال اپنا وقت اور اپنا خون پسینہ اور آنسو بہا کر گمراہ لوگوں کیلئے نفرت اور دشمنی کی بجائے خیر خواہی اور دل سوزی کے ساتھ یہ فریضہ انجام دینا چاہیے تاکہ دین کی قدر و قیمت دل میں آ جائے کیونکہ جو چیز مقصد حیات بن جائے اس پر سب کچھ قربان ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کو کسی پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔

 Taken with Jazakallah https://groups.google.com/forum/#!topic/dineislam/0IsfPsaxwOY
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
مولانا مجیب الرحمن انقلابی
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے جب اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیا تو ہر طرف دین سے دوری عقائد کی خرابی اور اعمال و عقائد کا بگاڑ دیکھا کہ لوگ شرک و بدعت، جہالت اور ضلالت و گمراہی کے ”بحرظلمات“ میں ڈوبے ہوئے ہیں تو ان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ امت محمدیہ ﷺ کی اصلاح کے سلسلہ میں متفکر و پریشان دیکھائی دینے لگے، آپؒ نے محسوس کیا کہ عام دینداری جو پہلے موجود تھی اب ختم ہوتی اور سمٹتی چلی جا رہی ہے، پہلے یہ دین داری خواص تک اور مسلمانوں کی ایک خاص تعداد میں رہ گئی تھی پھر اس کا دائرہ اس سے بھی تنگ ہوا اور ”اخص الخواص“ میں یہ دینداری باقی رہ گئی ہے پہلے جو خاندان اور قصبات و علاقے اور شہر ”رشد و ہدایت“ کے مراکز سمجھے جاتے تھے ان میں بھی اس قدر تیزی کے ساتھ انحطاط و زوال ہوا کہ اب ان کی ”مرکزیت“ ختم ہوتی جارہی ہے جہاں پہلے علم و عمل کی قندیلیں روشن رہتی تھیں اب وہ بے نور ہیں، دوسری بات انہوں نے یہ محسوس کی کہ علم چونکہ ایک خاص طبقہ تک محدود رہ گیا ہے اس لیے آپؒ یہ چاہتے تھے کہ عوام الناس میںپھر سے دینداری پیدا ہو، خواص کی طرح عوام میں بھی دین کی تڑپ اور طلب پیدا ہو، ان میں دین سیکھنے سکھانے کا شوق و جذبہ انگڑائیاں لے، اس کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر ایک دین سیکھے، کھانے، پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی طرح دین سیکھنے او اس پر عمل کرنے کو بھی اپنی زندگی میں شامل کریں اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا کیونکہ ان سے وہی فیضیاب ہو سکتے ہیں جن میں پہلے سے دین کی طلب ہواور وہ اس کا طالب بن کر خود مدارس و مکاتب اور خانقاہوں میں آئیں، مگر ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی محدود لوگ ہوتے ہیں اس لیے مولانا الیاس کاندھلویؒ ضروری سمجھتے تھے کہ اس ”دعوت و تبلیغ“ کے ذریعہ ایک ایک دروزاہ پر جا کر اخلاص و للہیت کے ساتھ منت و سماجت اور خوشامد کر کے ان میں دین کے ”احیائ‘ کی طلب پیدا کی جائے کہ وہ اپنے گھروں اور ماحول سے نکل کر تھوڑا سا وقت علمی و دینی ماحول میں گزاریں تاکہ ان کے دل میں بھی سچی لگن اور دین سیکھنے کی تڑپ پیدا ہوا اور یہ کام اسی دعوت والے طریقہ سے ہوگا جو طریقہ اور راستہ انبیاءکرام علیہم السلام کاتھا اور جس پر چلتے ہوئے صحابہ کرامؓ جیسی مقدس اور فرشتہ صفت جماعت پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرنے میں کامیاب ہوئی اور پھر جب اس دعوت و تبلیغ سے عام فیضاءدینی بنے گی تو لوگوں میںدین کی رغبت اور اس کی طلب پیدا ہوگی تو مدارس و خانقاہی نظام اس سے کہیں زیادہ ہوگا بلکہ ہر شخص مجسمِ دعوت اور مدرسہ و خانقاہ بن جائے گا۔۔۔
حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی دین کے لیے تڑپ و بے چینی اور درد وبے قراری دیکھنے میں نہیں آتی تھی ، مسلمانوں کی دین سے دوری پر آپؒ انتہائی غمگین و پریشان اوراس فکر میں ڈوبے رہتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر کسی طرح دین دوبارہ زندہ ہو جائے۔۔۔ بعض اوقات اسی فکر میں آپؒ ”ماہی بے آب“ کی طرح تڑپتے آہیں بھرتے اور فرماتے تھے میرے اللہ میں کیا کروں کچھ ہوتا ہی نہیں۔۔۔ کبھی دین کے اس درد وفکر میں بستر پر کروٹیں بدلتے اور جب بے چینی بڑھتی تو راتوں کو فکر سے اٹھ کر ٹہلنے لگتے۔۔۔ ایک رات اہلیہ محترمہؒ نے آپ ؒ سے پوچھا کہ کیا بات ہے نیند نہیں آتی؟۔۔۔ کئی راتوں سے میں آپؒ کی یہی حالت دیکھ رہی ہوں۔۔۔، جواب میں آپؒ نے فرمایا کہ! کیا بتلاو¿ں اگر تم کو وہ بات معلوم ہو جائے تو جاگنے والا ایک نہ رہے دو ہو جائیں۔۔۔ صرف آپؒ کی اہلیہ محترمہؒ ہی نہیں بلکہ آپؒ کے سوز و درد کا اندازہ ہر وہ شخص آسانی کے ساتھ لگا سکتا تھا جو آپؒ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور باتیں سنتا تھا، آپؒ کا بس نہیں چلتا تھا کہ سب لوگوں کے دلوں میں وہی آگ پھونک دیں جس میںوہ عرصہ سے جل رہے تھے۔۔۔ سب اس غم میں تڑپنے لگیں جس میں وہ خود تڑپ رہے تھے، سب میں وہی سوز و گداز پیدا ہو جائے جس کی لطیف لمس سے آپؒ کی روح جھوم اٹھتی تھی جب ایک جاننے والے نے خط کے ذریعہ آپ سے خیریت دریافت کی تو آپؒ نے سوز ودرد میں ڈوبے ہوئے قلم کے ساتھ جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ”طبیعت میں سوائے تبلیغی درد کے اور خیریت ہے“۔
اور پھر مولانا محمد الیاسؒ خود سراپا دعوت بن کر ”دعوت و تبلیغ “ والے کام کو لے کر بڑی دلسوزی کے ساتھ دیوانہ وار ”میوات“ کے ہر علاقہ میں پھرے ہر ایک کے دامن کو تھاما، ایک ایک گھر کے دروازہ پر دستک دی کئی کئی وقت فاقے کیے، گرمی و سردی سے بے پرواہ ہو کر تبلیغی گشت کیے۔۔۔ اور جب لوگوں نے آپؒ کی حسب خواہش آپؒ کی آواز پر ”لبیک“ نہ کہا تو آپؒ بے چین و بے قرار ہو کر راتوں کو خدا کے حضور روتے گڑگڑاتے اور پوری امت کی اصلاح کے لیے دعا کرتے۔۔۔ اور پھر اپنی اہمت و طاقت ، مال ودولت سب کچھ ان میواتیوں پر اور ان کے ذریعہ اس تبلیغی کام پر لگا دیا۔۔۔ اس دوران اپنے رفقاءاور ساتھیوں کو ایک خط میں آپؒ تحریر فرماتے ہیں کہ! تم غور کرو، دنیائے فانی میں کام کےلئے تو گھر کے سارے افراد ہوں او ر اس دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے صرف ایک آدمی کو کہا جائے اور اس پر بھی نباہ نہ ہو تو آخرت کو دنیا سے گھٹایا ،یا نہیں گھٹایا؟۔
    حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ اپنے ایک مکتوب میں میواتی حضرات کو تحریر فرماتے ہیں کہ ”میں اپنی قوت و ہمت کو تم میواتیوں پر خرچ کر چکا ، میرے پاس بجز اس کے کہ تم لوگوں کو قربان کردوں کوئی اور پونجی نہیں ہے۔۔۔
    اور پھر دنیا نے دیکھا کہ میواتی حضرات نے اپنے جان و مال اور زندگیوں کو اس کام پر قربان کر دیا۔۔۔ اور پھر ایک ایک گھر سے ایک ہی وقت میں کئی کئی افراد دین کے کام کے لیے باہر نکلنے لگے۔۔۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ ابتداءمیں یہی میواتی لوگ جن کو اپنے گھر اور گاو¿ں سے نکلنا مشکل تھا اب وہ مولانا الیاسؒ کی محنت سے اس دعوت و تبلیغ کی فکر لے کر ملک ملک، شہر شہر دین کی خاطر پھرنے لگے۔۔۔
        مولانا الیاسؒ کی یہ عالمگیر”احیائے اسلام کی تحریک“ جیسے ظاہر میں لوگ صرف کلمہ و نماز کی تحریک کہہ کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوش کرتے ہیں یہ کوئی معمولی کام اور تحریک نہیں بلکہ یہ پورے دین کو عملی طور پر زندگی میں نفاذ کی تحریک ہے۔۔۔ اس تحریک اور جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس ؒ خود اپنی اس تحریک کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”میرا مدعا کوئی پاتا نہیں“ لوگ سمجھتے ہیںیہ”تحریکِ صلوٰة“ ہے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ہر گز تحریکِ صلوٰة نہیں ہے بلکہ ہماری جماعت اور تحریک کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو حضورﷺ کا لایا ہوا دین پورا کا پورا سیکھا دیں یہ تو ہماری تحریک کا مقصد، رہی تبلیغی قافلوں کی چلت پھرت، تو یہ اس مقصد کے لیے ابتدائی ذریعہ ہے اور کلمہ و نماز کی تلقین گویا ہمارے پورے نصاب کی الف، ب، ت ہے۔۔۔۔
    ہماری تبلیغی تحریک کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے سارے کے سارے جذبات پر دین کے جذبہ کو غالب کر کے اور اس راستہ سے مقصد کی دعوت کو پیدا کرتے ہوئے اور اکرام مسلم کے اصول کو رواج دے کر پوری قوم کو اس حدیث کے مصداق بنایا جائے۔
    ترجمہ: ”تمام مسلمان ایک جسم و جان کی مانند ہیں“۔ اور ہمارے تبلیغی کام میں اخلاص، صدقِ دل کے ساتھ اجتماعیت اور مل جل کر باہمی مشورے کے ساتھ کام کرنے کی بڑی ضرورت ہے اور اس کے بغیر بڑا خطرہ ہے۔۔۔
    مولانا الیاسؒ نے اس دعوت و تبلیغ والے کام کے طریقہ کار اور چھ اصولوں کے علاوہ کچھ مطالبے اور دینی تقاضے بھی رکھے ہیں جس کے تحت اس دعوت و تبلیغ والے کام کی محنت و ترتیب اور مشورہ کے لیے روزانہ کم از کم دو سے تین گھنٹے وقت دینا، ذکر و اذکار اور اعمال کی پابندی کرناروزانہ دو تعلیمیں کروانا ایک مسجد میں اور ایک گھر میں، ہفتہ میںدو گشت کرنا، جس کے تحت کچھ وقت نکال کر اپنے ماحول میں ضروریات دین کی تبلیغ کےلئے باقاعدہ جماعت بنا کرایک امیر اور ایک نظام کی ماتحتی میں اپنی جگہ اور قرب و جوار میں تبلیغی گشت کرنا، ہر مہینہ میں تین دن اس دعوت و تبلیغ والے کام میں لگاتے ہوئے اپنے شہر یا قرب و جوار کے علاقہ میں گشت و اجتماع کرتے ہوئے دوسروں کو بھی اس دعوت و تبلیغ والے کام پر نکلنے کےلئے امادہ اور تیار کرنا، سال میں ایک ”چلہ“ یعنی چالیس دن اللہ کے راستہ میں دعوت و تبلیغ کےلئے لگانا، اور پھر چار مہینے(تین چلے) اللہ تعالیٰ کے راستہ میں نکل کر لگاتے ہوئے دین اور اس دعوت و تبلیغ والے کام کو سیکھے اور پھر ساری زندگی اسی کام میں صرف کرنا۔ بقول حضرت مولانا پالن پوری رحمة اللہ علیہ کے کہ ”اس دعوت و تبلیغ والے کام کو کرتے کرتے مرنا اور مرتے مرتے کرناہے“۔



    مولانا محمد الیاسؒ نے اس دعوتی سفر اور نقل و حرکت کے ایام کا ایک مکمل نظام الاوقات مرتب کیا جس کے تحت یہ تبلیغی جماعتیں اپنا وقت گزراتی ہیں۔۔۔ ایک وقت میں گشت، ایک وقت میں اجتماع، ایک وقت میں تعلیم، ایک وقت میں حوائج ضروری کا پورا کرنا اور پھر ان سارے کاموں کی ترتیب و تنظیم۔۔۔ گویا کہ یہ تبلیغی جماعت ایک چلتی پھرتی خانقاہ، متحرک دینی مدرسہ، اخلاقی و دینی تربیت گاہ بن جاتی ہے۔ مولانا الیاسؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے طریقہ کار میں دین کے واسطہ جماعتوں کی شکل میں گھروں سے دور نکلنے کو بہت زیادہ اہمیّت حاصل ہے، اس کا خاص فائدہ یہ ہے کہ آدمی اس کے ذریعہ اپنے دائمی اور جامد ماحول سے نکل کر ایک نئے صالح اور متحرک دینی ماحول میں آجاتا ہے۔۔۔ اور پھر اس دعوت و تبلیغ والے سفر اور ہجرت کی وجہ سے جو طرح طرح کی تکلیفیں اور مشقتیں پیش آتی ہیں اور در بدر پھرنے میں جو ذلتیں اللہ کے لیے برداشت کرنا ہوتی ہیں ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص طور پر متوجہ ہوتی ہیں۔
    بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ ایک موقعہ پر فرماتے ہیں ”یہ امت اس طرح بنی تھی کہ ان کا کوئی آدمی اپنے خاندان، اپنی برادری، اپنی پارٹی، اپنی قوم، اپنے وطن اور اپنی زبان کا حامی نہ تھا، مال و جائیداد اور بیوی بچوں کی طرف دیکھنے والا بھی نہ تھا بلکہ ہر آدمی صرف یہ دیکھتا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کیا فرماتے ہیں؟۔۔۔ امت جب ہی بنتی ہے جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے مقابلہ میں سارے رشتے اور سارے تعلقات کٹ جائیں، جب مسلمان ایک امت تھے تو ایک مسلمان کہیں قتل ہوتا تو ساری امت ہل جاتی اور تڑپ اٹھتی، اب ہزاروں، لاکھوں مسلمانوں کے گلے کٹتے ہیں اور کانوں میں جوں نہیں رینگتی“۔
    آج پوری دنیا میں تبلیغی جماعت اس دعوت و تبلیغ والے کام کو پوری محنت، اخلاص وللہیت اور ایک نظم کے ساتھ کر رہی ہے اور اس کام کے اثرات و ثمرات سے آج کوئی بھی ذی ہوش انسان انکاری نہیں۔۔۔۔ اللہ کی مدد و نصرت سے ناقابل یقین حد تک کامیابی ہو رہی ہے۔۔۔ دن رات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی و معصیت اور فسق و فجور میں زندگی گزارنے والے لاکھوں افراد اس تبلیغی جماعت کی بدولت تہجد گزار، متقی، پرہیز گار اور دین کے داعی بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں، دعوت و تبلیغ والے اس کام کی مثال پوری دنیا میں کسی مذہب والے کے پاس نہیں ہے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمة اللہ علیہ اس تبلیغی جماعت کی افادیت و ضرورت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”اصلاح نفس کے چار طریقے ہیں اور حُسنِ اتفاق سے ”تبلیغ“ کے اندر یہ چاروں طریقے جمع ہیں، صحبتِ صالح بھی ہے، ذکر و فکر بھی، مواخات فی اللہ بھی ہے، دشمن سے عبرت و موعظت بھی اور محاسبہ نفس بھی ہے۔۔۔ اور انہی چاروں کے مجموعہ کا نام ”تبلیغی جماعت“ ہے عام لوگوں کے لیے اصلاح نفس کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا ، اس طریقہ کار سے دین عام ہوتا جا رہا ہے اور ہر ملک کے اندر یہ صدا پہنچتی چلی جا رہی ہے اور اس کے ذریعہ لوگوں کے عقائد درست ہو رہے ہیں، لوگ تیزی کے ساتھ اعمال کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اپنے آپ کو حضورﷺ کی زندگی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔ تبلیغی جماعت مخلوق کو مخلوق کی غلامی سے نکال کرخالق کی بندگی و غلامی میں لانے، صحابہ کرامؓ جیسی پاکیزہ صفات و عادات کو اپنانے اور پیدا کرنے، صبح جاگنے سے لے کر رات سونے تک، کھانے پینے سے لے کر بیت الخلاءتک۔۔۔ گویا کہ پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک پوری زندگی میں دین لانے کی کوشش اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے اور خالق ہی سے سب کچھ ہونے کا یقین دلوں میں پیدا کرنے میں مصروف ہے، حقیقت یہ ہے کہ جس کام مین بھی جان و مال اور وقت یہ تین قیمتی چیزیں خرچ ہو جائین تو وہ کام بھی قیمتی ہو جاتاہے۔۔۔ تبلیغی جماعت بھی آج دعوت و تبلیغ کے اس مقدس کام میں جان و مال اور وقت لگا کر یہ کام پوری دنیا میں کرنے اور پھیلانے میں مصروف ہے۔۔۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/lahore/09-Nov-2012/%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85%DB%8C-%D8%AA%D8%A8%D9%84%DB%8C%D8%BA%DB%8C-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9-%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%88%D9%86%DA%88---%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%8C-%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7-%D8%B3%DB%92-%D9%84%D8%A7%DA%A9%DA%BE%D9%88%DA%BA-%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%B4%D8%B1%DA%A9%D8%AA-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DA%BA-%DA%AF%DB%92
تبلیغ کی ضرورت و اہمیت
/http://shaheedeislam.com


تبلیغ کی ضرورت و اہمیت
س… میرا مسئلہ تبلیغ سے متعلق ہے، قرآن پاک کی آیت کا ترجمہ لکھتا ہوں: “تم بہترین اُمت ہو، لوگوں کے لئے نکالے گئے ہو، تم لوگ نیک کام کا حکم کرتے ہو اور بُرے کام سے منع کرتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔” دُوسری آیت کا ترجمہ: “اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی ضروری ہے جو خیر کی طرف بلائے اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کرے اور بُرے کام سے منع کرے، ایسے لوگ پورے کامیاب ہوں گے۔” ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: “جو شخص کسی ناجائز کام کو ہوتے ہوئے دیکھے، اگر اس پر قدرت ہو تو اس کو ہاتھ سے بند کردے، اتنی قدرت نہ ہو تو دِل میں بُرا جانے، اور یہ ایمان کا بہت کم درجہ ہے۔” ایک دُوسری حدیث کا مفہوم ہے: “تمام نیک اعمال جہاد کے مقابلے میں ایک قطرہ ہیں، اور تبلیغِ دِین ایک سمندر ہے، اور جہاد، تبلیغ کے مقابلے میں پس ایک قطرہ ہے” آیت اور حدیث کی روشنی میں ان کا جواب دیں۔
ج… آپ نے صحیح لکھا ہے، دِین کی دعوت دینا، لوگوں کو نیک کاموں پر لگانا اور بُرے کاموں سے روکنا بہت بڑا عمل ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے مسلمان بھائیوں کی فکر کرے اور بقدرِ استطاعت ان کو نیکیوں پر لگائے اور بُرائیوں سے بچائے۔ آخری حدیث جو آپ نے لکھی ہے، یہ میری نظر سے نہیں گزری۔

کیا تبلیغی جماعت سے جڑنا ضروری ہے؟
س… جماعت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا اس کام میں جڑنے کے علاوہ بھی اصلاح اور ایک مخصوص ذمہ داری بحیثیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مسلمان اُمتی ہونے کے ادا ہوسکتی ہے؟ ایک مسلمان کے ذمے کیا ہے؟ وہ کیسے اپنی زندگی کا رُخ صحیح کرے؟ اور ساری انسانیت کے لئے فکرمند کیونکر ہو؟
ج… جماعت بہت مبارک کام کر رہی ہے، اس میں جتنا وقت بھی لگایا جاسکے ضرور لگانا چاہئے، اس سے اپنی اور اُمت کی اصلاح کی فکر پیدا ہوتی ہے، اور اپنے نفس کی اصلاح کے لئے کسی شیخِ کامل محقق کے ساتھ اصلاحی تعلق رکھنا چاہئے۔

طائف سے واپسی پر آنحضرت ﷺ کا حج کے موقع پر تبلیغ کرنا
س… کیا طائف سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ سے روک دیا گیا تھا؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف حج کے موقع پر ہی دِین کی تبلیغ کرسکتے تھے؟
ج… کفار کی جانب سے تبلیغ پر پابندی لگانے کی ہمیشہ کوشش ہوتی رہی، لیکن یہ پابندی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی قبول نہیں فرمائی، البتہ جب یہ دیکھا کہ اہلِ مکہ میں فی الحال قبولِ حق کی استعداد نہیں اور نہ یہاں رہ کر آزادانہ تبلیغ کے مواقع ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسمِ حج میں باہر سے آنے والے قبائل کو دعوت پیش کرنے کا زیادہ اہتمام فرمایا، جس سے یہ مقصد تھا کہ اگر باہر کوئی محفوظ جگہ اور مضبوط جماعت میسر آجائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ہجرت کرجائیں۔

کیا نماز کی دعوت اور سنت کی تلقین ہی تبلیغ ہے؟
س… تبلیغ کے کیا معنی ہیں؟ اور اس کا دائرہٴ کار کیا ہے؟ کیا نماز کی دعوت اور سنت کی تلقین ہی تبلیغ ہے؟ اگر کوئی شخص معاشرے کو سنوارنے کے لئے جدوجہد کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ اقتدار کے لئے ایسا کرتا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ سنت پر عمل کریں تو دُنیا قدموں میں خودبخود آجائے گی، حالانکہ مقصد اصلاحِ معاشرہ ہے اور معاشرے کو ان بُرائیوں سے بچانا مقصود ہے جو اسے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس شخص یا جماعت کا یہ فعل کس حد تک اسلام کے مطابق ہے؟ کیا یہ تبلیغ کی مد میں شامل ہے؟
ج… معاشرہ افراد سے تشکیل پاتا ہے، افراد کی اصلاح ہوگی تو معاشرے کی اصلاح ہوگی، اور جب تک افراد کی اصلاح نہیں ہوتی، اصلاحِ معاشرہ کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ پس جو حضرات بھی افراد سازی کا کام کر رہے ہیں وہ دعوت و تبلیغ کا کام کر رہے ہیں۔
          تبلیغ کا دائرہٴ کار تو پورے دِین پر حاوی ہے، مگر نماز دِین کا اوّلین ستون ہے، جب تک نماز کی دعوت نہیں چلے گی اور لوگ نماز پر نہیں آئیں گے، نہ ان میں دِین آئے گا اور نہ ان کی اصلاح ہوگی، اور ہر کام میں سنتِ نبوی کو اپنانے کی دعوت، درحقیقت پورے دِین کی دعوت ہے، کیونکہ سنت ہی دِین کی شاہراہ ہے، اس لئے بلاشبہ نماز اور سنت کی دعوت ہی دِین کی تبلیغ ہے۔